تحریر:ابوشحمہ انصاری سعادت گنج،بارہ بنکی
اردو زبان نہیں ہماری شناخت کا چراغ ہے۔ زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ کسی بھی قوم کی تہذیب، تاریخ، ثقافت اور شناخت کی علامت ہوتی ہے۔ زبانیں قوموں کے جذبات اور فکری ورثے کی امین ہوتی ہیں۔ جب کوئی قوم اپنی زبان سے دور ہو جاتی ہے۔ تو اس کا اثر اس کی تہذیبی شناخت، ثقافتی سرمائے اور فکری ارتقاء پر بھی پڑتا ہے۔ اردو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش ہے۔ آج اردو کا حال بھی ان افراد کی طرح ہو گیا ہے۔ جو بے بسی، لاچاری اور بے حسی کا شکار ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اردو برصغیر کے علمی، ادبی، اور انقلابی حلقوں کی زبان تھی مگر آج وہی اردو اپنے ہی وارثوں کی بے اعتنائی کا شکار ہے۔
اردو ایک تہذیب ہے:
اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیبی و ثقافتی وراثت ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس نے شاہجہان آباد سے لے کر اودھ اور دکن تک ادب و شعر کی روشنی بکھیری۔ یہی زبان تھی جس نے تحریکِ آزادی کو "انقلاب زندہ باد” کا نعرہ دیا۔ یہی زبان تھی جس نے علماء، صوفیاء، اور دانشوروں کے افکار کو عوام تک پہنچایا۔ مگر آج اسی زبان کو وہ عزت و مقام حاصل نہیں جو اس کا حق تھا۔ اردو کی زبوں حالی محض ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کی شناخت کا سوال ہے۔
اپنوں کی بے رخی:
یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ آج اردو کو سب سے زیادہ بے اعتنائی کا سامنا خود اس کے اپنوں کی طرف سے ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل اردو سے تقریباً ناآشنا ہو چکی ہے۔ گھروں میں اردو بولنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسکولوں میں اردو کو ثانوی حیثیت دی جا رہی ہے۔ نوکریوں کے حصول میں بھی اردو بولنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نتیجتاً، والدین اپنے بچوں کو اردو سے زیادہ انگریزی یا دیگر زبانوں کی طرف مائل کر رہے ہیں، تاکہ وہ جدید دنیا میں آگے بڑھ سکیں۔
یہ رویہ کسی حد تک قابل فہم بھی ہے، کیونکہ موجودہ تعلیمی اور معاشی نظام میں انگریزی کو فوقیت حاصل ہو چکی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اردو کو بالکل ہی پسِ پشت ڈال دیا جائے۔ ہم انگریزی سیکھیں، دوسری زبانوں میں مہارت حاصل کریں، مگر کیا ہم اپنی پہچان اور ادب و تہذیب کی زبان کو نظرانداز کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
بطور اختیاری مضمون اردو کی حق تلفی:
اردو کے زوال کے کئی اسباب ہیں۔ آج بیشتر تعلیمی اداروں میں اردو کو محض ایک اختیاری مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ والدین بھی بچوں کو اردو پڑھانے کے بجائے انگریزی میڈیم اسکولوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نئی نسل اردو لکھنے اور پڑھنے سے قاصر ہوتی جا رہی ہے۔ اردو کو آئینی طور پر تسلیم کیے جانے کے باوجود اس کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ سرکاری دفاتر، عدالتی نظام، اور روزمرہ کے سرکاری امور میں اردو کا استعمال محدود ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے اردو کی عملی حیثیت مزید کمزور ہو رہی ہے۔
اردو سے دوری:
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو کے اصل وارث یعنی برصغیر کے مسلمان خود اپنی زبان سے دور ہو چکے ہیں۔ ان کے گھروں میں اردو کم اور انگریزی یا مقامی زبانوں کا چلن زیادہ ہو گیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میڈیا میں اردو کی موجودگی کمزور ہے۔ اگرچہ کچھ ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اردو کو سپورٹ کر رہے ہیں، مگر وہ تعداد اور معیار کے لحاظ سے ناکافی ہیں۔
عملی اقدامات ضروری:
یہ وقت ہے کہ ہم اردو کی بحالی کو صرف ایک جذباتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے عملی اقدامات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اردو کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو صرف ماضی کی زبان بن کر نہ رہ جائے بلکہ مستقبل کی زبان بھی بنے۔ ہمیں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو کے فروغ کے لیے جدید نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جو نئی نسل کے لیے نہ صرف دلچسپ ہو بلکہ عملی زندگی میں بھی کارآمد ثابت ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ اردو کے فروغ کے لیے خصوصی فنڈز مختص کرے۔ سرکاری اداروں میں اردو کا استعمال یقینی بنایا جائے۔ اردو میں سائنسی، تکنیکی اور تجارتی علوم پر زیادہ سے زیادہ مواد تیار کیا جائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو کا مستقبل تابناک ہو، تو ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنے ہوں گے۔ گھروں میں اردو کو روزمرہ کی گفتگو کا حصہ بنانا ہوگا۔ اور اردو ادب و صحافت کو مزید مستحکم کرنا ہوگا۔
اردو لازمی قرار دیا جائے:
یہ ضروری ہے کہ اردو کی بقاء اور فروغ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ گھروں میں اردو بولنے کا اہتمام کریں۔ تاکہ بچوں میں یہ زبان فطری طور پر پروان چڑھے۔ اردو کو اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے کے لیے بیداری مہم چلائی جائے۔ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اردو کے فروغ کے لیے بہتر تعلیمی پالیسیاں اپنائے۔ اردو اخبارات، رسائل، ویب سائٹس، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو فروغ دیا جائے تاکہ اردو جاننے والوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں نمایاں مقام دلانے کے لیے اردو بلاگز، ویب سائٹس، اور یوٹیوب چینلز بنائے جائیں۔ اردو مشاعرے، ادبی نشستیں، اور ثقافتی میلوں کا انعقاد زیادہ سے زیادہ کیا جائے تاکہ اردو کی محبت عوام میں بیدار ہو۔
خوابوں کو عملی جامہ پہنائیں:
یہ وقت خواب دیکھنے کا نہیں بلکہ عمل کرنے کا ہے۔ ہمیں اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔ کیونکہ اگر ہم نے آج اردو کے لیے کچھ نہ کیا۔ تو کل ہماری پہچان کا یہ چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زبان صرف بولنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ہماری تاریخ، ثقافت، اور تہذیب کا حصہ ہے۔ اگر ہم نے اردو کو فراموش کر دیا تو یہ محض ایک زبان کا نقصان نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ ہماری شناخت کے مٹنے کا پیش خیمہ ہوگا۔
ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ اردو ایک زندہ زبان ہے۔ جو صرف ماضی کی یادگار نہیں بلکہ مستقبل کی امید بھی ہے۔ اردو کو جدید ذرائع ابلاغ، تعلیم، اور کاروبار میں فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ تاکہ یہ زبان آنے والی نسلوں کے لیے بھی اسی طرح معتبر اور مقبول رہے جیسے یہ ماضی میں تھی۔
یہ وقت ہے کہ ہم خود سے یہ سوال کریں کہ کیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک ایسی شناخت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ جو ہماری تاریخ اور تہذیب کا بنیادی ستون رہی ہے؟ اگر جواب "نہیں” ہے تو ہمیں ابھی سے اردو کی بقاء اور ترقی کے لیے عملی قدم اٹھانے ہوں گے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے اپنی زبان کا ساتھ نہ دیا۔ تو کل شاید یہ زبان بھی ہمارے ساتھ نہ رہے!